Safir e Bharat

میں کسی کی بھی گرفتاری کیلئے یا ضمانت خارج ہونے کا ذمہ دار نہیں ہوں: اویس سلطان خان

نئی دہلی:19 اکتوبر (سفیرِ بھارت بیورو)دہلی کے انسانی حقوق کے کارکن اویس سلطان خان پر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے CAA/NRC احتجاج اور دہلی کے دنگوں کے لئے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے حوالے سے سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ انہوں نے آج درج ذیل بیان جاری کیا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے میرے بارے میں جھوٹی افواہیں اور الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی میرے خلاف ایک مہم چلائی گئی تھی۔ لیکن اس بار سوشل میڈیا کے ذریعے میرے خلاف پھلائے جانے والا جھوٹ منصوبہ بند طریقہ سے پلان کیاگیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جتنی بھی پوسٹیں میرے خلاف اپلوڈ کی جارہی اس میں کہا جا رہا ہے کہ میری وجہ سے کچھ مسلم نوجوان جیل میں ہیں اور انہیں عدالت سے ضمانت نہیں مل رہی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر لگائے گئے یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ میں کسی کی گرفتاری یا ضمانت منسوخی کا ذمہ دار نہیں ہوں۔

جو لوگ جیل گئے ہیں ان کے جیل جانے کی اپنی اپنی وجوہات رہی ہیں۔ میں اس کے لیے بالکل قصوروار نہیں ہوں۔ مجھے غدار، دلال، مخبر، ایجنٹ، سرکارکا آدمی، پولیس کا آدمی اور نہ جانے کیا کیا ناشائستہ الفاظ کہے جارہے ہیں۔ جو سراسر جھوٹ ہے۔میری آج تک عدالت میں کوئی گواہی بھی نہیں ہوئی ہے۔تاہم جو بیل آرڈر کی کاپیاں میرے نام کو ہائی لائٹ کرکے پھیلائی جارہی ہیں، اسے اگر کوئی سمجھدار شخص پڑھے گا تو اسے معلوم ہوگا کہ وہ DPSG (Delhi Protest Support Group)واٹس ایپ گروپ چیٹ کے کچھ میسج ہیں۔جنہیں میں نے فساد ہونے سے کچھ دن پہلے ایک بحث کے دوران فساد روکنے کی کوشش میں لکھے تھے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والا جھوٹ میرا بیان نہیں بلکہ واٹس ایپ گروپ کے میسج کا حوالہ ہے۔ میرے علاوہ اس طرح بہت سے لوگوں کے نام اور ان کی چیٹ کا بھی کیس میں حوالہ ہے۔

میں یہ واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے DPSG (Delhi Protest Support Group) واٹس ایپ گروپ کی چیٹ پولیس یا حکومت کو نہیں دی ہے اور نہ ہی میں نے اس گروپ چیٹ کا کوئی سکرین شاٹ دیا ہے۔

میں CCA کا مخالف ہوں اور میرا ماننا ہے کہ شاہین باغ سے شروع ہونے والا احتجاج جس کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی وہ ملک کا سب سے خوبصورت اور تاریخی آندولن ہے۔ اس آندولن نے آئین کے لیے پورے ملک کو قومی پرچم ترنگے کے نیچے اکٹھا کردیا۔ جس سے ملک میں اپنے حقوق پر بات کرنے کی نئی قوت پیدا ہوئی۔

شمال مشرقی دہلی کے علاقہ جعفرآباد روڈ کے کنارے جب کچھ لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کیا تو وہاں رہنے والے ہم لوگوں نے کوشش کی کہ کوئی روڈ بند نہ ہو۔ کیونکہ ہمارا علاقہ شاہین باغ سے بالکل مختلف ہے۔ احتجاج سڑک کنارے پر امن طریقے سے چلتا رہے۔ یہ اس لیے بھی تھا کہ ہمارا علاقہ حساس ہے اور سڑکوں پر رکاوٹوں کی وجہ سے 1992، 2006 اور دسمبر 2019 میں تشدد ہو چکا ہے۔ ان تمام حادثات میں ہمارے ہی معصوم لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ دوبارہ ایسا ہو۔

اس کے لیے میں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر زمینی سطح پر اور سوشل میڈیا کے ذریعہ خوب کوششیں کی، تاکہ کچھ بھی غلط نہ ہونے پائے۔ میری کوشش صرف اپنے لوگوں اور اپنے علاقے کو فسادات سے بچانے کی تھی۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ فسادات سے نقصان ہی ہوگا اور یہاں کے عام ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔

میرا خاندان میری پیدائش سے بہت سال پہلے پرانی دہلی کے لال کواں علاقہ میں رہتا تھا، وہ اس دور میں لال کواں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے وہاں سے جمنا کے پار نیو سیلم پور منتقل ہو گئے تھے۔ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد نیو جعفرآباد میں میرا کنڈرگارڈن نامی ا سکول فسادیوں نے جلا دیا تھا، مجھے آج بھی وہ خوف و دہشت یاد ہے کہ کس طرح ہمارے محلے کی تمام خواتین اور بچوں کو ہمارے گھر میں رکھا گیا تھا، اور خاندان کے بزرگ اور بچے کئی مہینوں تک راتوں کو جاگتے رہے۔ مجھے دسمبر 2012 میں آسام کے کوکراجھار فسادات کے متاثرین کے زخم یاد ہیں، مجھے ستمبر 2013 میں مظفر نگر تشدد کے متاثرین کا درد یاد ہے۔ میں نے 2015 میں دہلی کے ترلوک پوری میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے دوران وہاں جاکر ہجوم کا مقابلہ کرکے متاثرین کے ساتھ کھڑا ہونا قبول کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ فسادات ختم ہونے کے بعد بھی فسادات کا درد نسل در نسل جاری رہتا ہے۔

میں سماج کو متحد کرنے، باہمی اعتماد، احترام اور برادریوں کے درمیان بات چیت پر یقین رکھتا ہوں اور اپنے بزرگوں کی طرح میں ہندو مسلم دوستی کے حق میں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ انسانیت کو بچانے، معاشرے کے رشتوں کے تحفظ، امن اور ہم آہنگی کے لیے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بڑی طاقتوں سے لڑتا رہا ہوں۔

فروری 2020 میں بھی ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود کچھ شرپسندوں نے، جنہیں آج کچھ لوگ ہیرو بنا رہے ہیں، ہمارے علاقے کو فسادات کی آگ میں جھونک دیا۔ جس کے نتیجے میں 58 بے گناہ لوگ مارے گئے، 1500 سے زیادہ عام ہندو اور مسلمان گرفتار ہوئے، اور آج بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ایک بار پھر علاقے کے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ تاہم جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ معاشرہ تقسیم ہوا اور آج بھی تعلقات بہتر نہیں ہوئے۔

اس وقت ہمارے علاقے کے لوگوں میں ان تمام بیرونی لوگوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کافی غصہ تھا جنہوں نے سڑک کو بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے حالات خراب ہو گئے اور فرقہ وارانہ تشدد ہوا۔

دہلی فسادات کی سازش کے معاملے میں بار بار ڈی پی ایس جی واٹس ایپ گروپ کا ذکر ہوتا ہے۔ اس گروپ میں فساد سے کئی دن پہلے میری پنجرہ توڑ کے ساتھی اطہر سے بحث ہوئی تھی جس میں میں نے کہا تھا کہ راستے میں رکاوٹیں تشدد کا باعث بن سکتی ہیں اور ہم اسے کسی قیمت پر نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بحث اس لیے ہوئی کیونکہ سپریم کورٹ میں شاہین باغ کے معاملے پر پہلی سماعت ہوئی تھی۔ اس سے کچھ گھنٹے قبل رات تقریباً 3 بجے چاند باغ میں پنجرہ توڑ والے اور اس کے ساتھی میٹنگ کر رہے تھے۔ میں وہاں بن بلائے پہنچ گیا تھا اور ان کے روڈ بلاک کرنے کا جو منصوبہ تھا اس کو ناکام کر دیاتھا۔ اور یہ سب کچھ نامعلوم علاقوں کے تقریباً 500 لوگوں کے سامنے ہوا، جنہوں نے میری بات کی تائید کی۔ کچھ گواہ جن کو میں جانتا تک نہیں انہوں نے اس ملاقات کے بارے میں بیانات دیے ہیں اور بتایا ہے کہ میں نے رات کو حادثہ ہونے سے کیسے بچایا۔ اور واٹس ایپ گروپ میں اس حوالے سے اطہر کے ساتھ بحث بھی ہوئی۔ وہ چیٹ کسی کے موبائل سے ضبط کر کے چارج شیٹ میں لگایا ہے۔

فسادشروع ہونے سے پہلے ہی میں نے اس ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے اپنی فیس بک پوسٹ پر مدد مانگی تھی لیکن اکثر لوگوں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور پھر بھی انہوں نے سوشل میڈیا پر میرے بارے میں غلط باتیں لکھیں، لیکن چند گھنٹوں کے بعد جب فساد شروع ہوا، ایک بار شروع ہوا تو ان لوگوں نے اپنی پوسٹیں ڈیلیٹ کر دیں۔ لیکن تب سے لے کر آج تک وہ میرے بارے میں ہر جگہ جھوٹی باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔ انہیں فسادہونے کا بالکل بھی دکھ نہیں ہیں، کیونکہ انہیں چیزوں سے ان کی دکانیں چلتی ہیں۔

انہوں نے کچھ صحافیوں کو مدعو کیا اور میرے بارے میں عدالت میں گواہی دینے کی بات پھیلائی۔ اور جب بھی ڈی پی ایس جی کے واٹس ایپ گروپ کے میسج پر عدالت میں بحث ہوتی ہے تو ان کے وکلاء جان بوجھ کر میرے نام کے ساتھ مجھے گواہ بنا کر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ ریکارڈ پر آجائے اور عوام کو یقین ہو کہ گویا میری عدالت میں گواہی ہوئی ہے۔

پچھلے 5 سالوں سے فساد حمایتی میرے کردار کو داغ دار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور عام لوگوں کو جنہیں میں جانتا بھی نہیں ہوں، مجھے اور میرے دوستوں اور جان پہچان والوں کے بارے میں مسلسل بد نام کر رہے ہیں۔ اور جو لوگ جھوٹ پھیلانے والوں کی باتوں میں نہیں آتے وہ ان لوگوں سے بھی دشمنی کرتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت سوشل میڈیا پر سامنے آرہا ہے کہ کس قدر معزز لوگوں اور ملک کی سب سے بڑی مسلم تنظیم کو مجھ سے جوڑ کر نچلی سطح پر بدنام کیا جا رہا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ اس سب کے پیچھے کون ہے۔ اس منظم حملے کے ذریعے میرے خلاف ایک پرجوش ہجوم کھڑا کر دیا گیا ہے جو ان کے بہکاوے میں آ کر مجھے جسمانی طور پر بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن میں انہیں بتانا چاہوں گا کہ میں ان سے نہیں ڈرتا۔ اگرچہ وہ پردے کے پیچھے اپنے نوکروں کے ذریعے کام کریں، لیکن ان کا دل جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ اور اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ میرے خلاف ان کا حملہ کبھی رکنے والا نہیں ہے۔ آج، کل، پرسوں، آنے والے دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں وہ کوئی نہ کوئی نیا جھوٹ ضرور پھیلائیں گے۔ اور وہ متاثرین کے خاندانوں کو پیادوں کے طور پر استعمال کرتے رہیں گے اور آگے بھی کریں گے۔

میں خالد سیفی، عمر، شرجیل، اطہر، گلفشاں، شاداب، تسلیم اور دیگر کے اہل خانہ کا درد سمجھ سکتا ہوں۔ کوئی بھی شخص صحیح ہو یا غلط، اس کے گھر والے اس سے دوری برداشت نہیں کر پاتے۔ میں تمام اہل خانہ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے پیارے میری وجہ سے جیل میں نہیں ہیں اور نہ ہی میری وجہ سے ان کی ضمانتیں خارج ہو رہی ہیں۔ آپ کے خاندان کے لوگ، جن لوگوں کی وجہ سے جیل گئے ہیں، وہ آج آپ کو اور آپ کے پیاروں کو پیادوں کے طور پر استعمال کر کے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ آپ کو ان سے زیادہ ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے۔ جن کو تم اپنا سمجھتے ہو وہ دراصل تمہارے دشمن ہیں۔

آپ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میں فساد کے خلاف ہوں چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ لیکن جو لوگ آپ کو جھوٹی باتیں لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں وہ فسادات کی حمایت میں تھے، وہ گرفتار ہونے سے کیسے بچ پائے؟۔ وہ کس کے آدمی ہیں؟ انہیں کس نے بچایا لیا؟

آپ کو سمجھنا چاہئے کہ میں نے سب سے زیادہ مخالفت پنجرہ توڑ کی ہے اور اس کے خلاف میں کھڑا رہا ہوں اور اگر میں حکومت یا پولیس کا آدمی ہوں تو اس کیس میں برسوں پہلے پنجرہ توڑکے سرکردہ رہنماؤں کی ضمانت کیسے ہوئی؟ آنکھیں کھولو اور ان سے پوچھنا شروع کرو جو تم سب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کیس عدالت میں چل رہا ہے، اس لیے آج تک جو بھی افواہیں پھیلائی گئی ہیں ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ لیکن فسادیوں کے حامیوں کی طرف سے منظم سازش اور بدنام کرنے کی کوششوں کے نتیجہ کے بعد میں نے فیصلہ لیا کہ میں اپنا موقف اور اپنی بات سب سے سامنے رکھوں۔ البتہ فساد کو روکنے کے لیے میں جو کچھ کر سکتا تھا میں نے کیا۔ اور آئندہ جب بھی عدالت مجھ سے اس معاملے میں فسادات کے خلاف میرے احتجاج کی وجہ پوچھنے کے لیے بلائے گی تو میں ضرور جاؤں گا۔

Related posts

Leave a Comment

türk reklam ajansları reklam ajansları mail adresleri istanbul en iyi reklam ajansları istanbuldaki ajanslar listesi türkiyenin en iyi ajansları reklam ajansları listesi reklam ajans şirketleri türkiye en iyi ajanslar